ایسٹر کہنا چاہئے یا عید قیامت المسیح؟

عزیز مسیحی دوستو!
سلام و آداب!

            دیکھئے  ایسٹر کی آمد آمد ہے اور بہتیرے لوگو ں کو آج اس اصطلاحی و لفظی جنگ کا سامنا ہوگا یا شاید آپ میں سے ہی کوئی ایساہو جو دوسروں کو اس بات سے منع کرے کہ ’’Happy Easter‘‘ مت کہیں یا شاید آپ اس کا شکار بن جائیں۔ پچھلے چند دنوں سے مجھے اور یقیناً آپ سب کو بھی ایسے sms ، پراصرار اقوال اور نصیحت آمیز پیغامات وصول ہونا شروع ہو گئے تھے کہ ’’Happy Easter‘‘ کہنے کی بجائے ’’Happy Resurrection Day‘‘ یا ’’عید قیامت المسیح مبارک‘‘ کہیں اور یا اسی قسم کی دوسری اصطلاحات کا استعمال کریں۔ دوست ایک دوسرے کو پابند کر رہے ہیں حتیٰ کہ منبر (pulpit)سے پورے زور و شور کے ساتھ لمبی چوڑی تاریخ بیان کر کے’’ ایسٹر ‘‘کی قدیم اصطلاح کو ترک کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا مگر یہ قطعاً نامناسب  اور شدت پسند رویہ ہے ۔  البتہ میں یہ بات ضرور واضح کر دوں  کہ میری مراد یہ نہیں کہ اصطلاح نامناسب اور غلط ہے بلکہ اس کا اطلاقی طریقہ کار غلط ہے۔

انتہائی غلط رویہ:     ایک غلط رویہ تیزی کے ساتھ عام ہوتا جا رہا ہے  کہ اگر کوئی  ’’ہیپی ایسٹر (Happy Easter)‘‘ کہتا ہے تو ہماری قوم کا یہ روشن خیال طبقہ جو عید قیامت المسیح کہنے پر ناجائز اصرار کرتا ہے آپ کو جواب ہی نہیں دے گا  گویا ہم نے اُسے کوئی نہایت غلط لفظ کہہ دیا ہو۔ پتہ نہیں یہ کیا ہو رہا ہے۔  برائے مہربانی ایسا نہ کریں اگر آپ واقعی خلوصِ دل کے ساتھ  مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی  تعلیم کو عام کرنا چاہتے ہیں تو کیوں اس معاملے کو ایک لفظی جنگ ، بڑا تنازعہ اور بدعت بنا رہے ہیں؟  اس طرح سے  جو کچھ ہو رہا ہے نہایت غلط ہو رہا ہے ۔  عید قیامت المسیح کہنے والوں سے عاجزانہ درخواست  ہے کہ ٹھیک ہے آپ بھی اپنی بات پر قائم رہیں مگر دوسروں کو غلط نہ کہیں۔

            میری آپ سب سے صرف یہی عرض ہے کہ اگر کوئی ’’ہیپی ایسٹر ‘‘ کہتا ہے تو اسے کہنے دیجئے۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ قطعاً کوئی نقصان نہیں اور اگر آپ عید قیامت المسیح کہتے ہیں تو ہم آپ کے بھی ساتھ ہیں مگر دوسروں کو بھی غلط مت کہیں۔ اب اگر آپ منع کرنے والوں میں سے ہیں تو ذیل کے دلائل کو کشادہ دلی سے پڑھیے اور اگر آپ کو منع کیا جاتا ہے تو میری طرح مندرجہ ذیل دلائل کا مؤثر استعمال کیجئے  ۔

دلائل:

۱۔ یہ محض لفظی و اصطلاحی تصادم اور تفریق ہے اس کا ایمان، نجات اور روحانی بلوغت سے کوئی تعلق نہیں ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ پڑھے لکھے اور جدت پسند دوستوں کو ایک نیا شوشہ ضرور مل گیا ہے  مسیحیت میں تبدیلی لانے کا۔  خود کو تبدیل کر نہیں سکتے اور چلے ہیں دنیا کو تبدیل کرنے۔

۲۔ ولیم شیکسپئر کا ایک شہرہ آفاق جملہ ہے ’’نام میں کیا رکھا ہے؟‘‘ ۔ آپ اسے ایسٹر کہیں یا کچھ اور کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے بتائیے اگر اتوار کا نام  اتوار نہ ہو کچھ اور ہو تو کیا فرق پڑے گاچھٹی تو پھر بھی ہوگی؟ پھر یہ بھی بتائیے کہ ہرزبان، قوم اور مذہب میں خدا کے مختلف نام رائج ہیں۔ کیا اس سے خدا کی ذات پر کچھ اثر پڑتا ہے ؟ کیا دعا کرنے والے شخص کی شنوائی نہیں ہوتی؟ شاید مجھ اور آپ سے زیادہ ہوتی ہے۔ میرے عزیز! یہ محض لفظی تصادم اور ٹکراؤ ہے جس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ سمجھنے کی کوشش کیجئے!

۳۔ ہمارےہفتہ وار  دنوں اور مہینوں کے سب نام بھی یونانی تاریخ سے وابستہ ہیں  اور دیوتاؤں کے نام پر ہیں جیسے کہ Saturday ، Saturn  کے نام پر ہے تو پھر انھیں بھی تبدیل کر دیجئے سرکار!کر سکتے ہیں؟ یا صرف ادھر ہی زور چلتا ہے؟

۴۔ غیر مذاہب سے  مسیحیت میں شامل ہونے والی نامور شخصیات جیسے کہ نبیل قریشی( مرحوم) ، انیل کانت، پیر طیب بخش،  پادری برکت اللہ خاں، پادری عبدالحق وغیرہ  کو بھی اپنا نام تبدیل کرنے پر مجبور کریں اور نجات پانے سے پہلے اگر آپ کا اپنا نام بھی یہی تھا جو نجات پانے اور نیا مخلوق بننے کے بعد بھی موجود ہے تو پھر آج ہی اپنا نام بھی تبدیل کر لیجئے کیونکہ آپ کا یہی نام تب سے موجود ہے جب آپ گنہگار تھے اور آئندہ سے ہر بپتسمہ لینے والے شخص کا نام بھی تبدیل کر دیاکیجئے گا!    ( واہ کیا بات ہے!)  ۔ یا اس کے علاوہ ہمارے اپنے بہن بھائیوں  میں سے کئی لوگوں کے نام ایسے ہیں جو مسیحی نہیں بلکہ کسی دوسری تاریخ یا مذہب سے تعلق رکھتے ہیں کیا ان کے نام بھی تبدیل کر دینے چاہئیں؟

۵۔   عالمگیر کلیسیا  میں آج بھی  اکثریت ایسٹر ہی کہتی ہے اور میں نے بڑی تحقیق کر کے دیکھ لیا ہے کہ بیشتر بڑے اور نامور خدام جنہیں اپنے نام کے ساتھ ہمارے خادموں کی طرح کوئی بڑے بڑے ٹائٹل لگانے کا کوئی شوق نہیں  وہ بھی ’’ایسٹر ‘‘ہی کہتے ہیں ۔ دنیا بھر کے تمام بڑے خادمین اور بڑی کلیسیائیں اس معاملے کوکوئی ایشو نہیں بناتیں بلکہ وہ بڑے فخر اور آرام کے ساتھ ایسٹر کہہ رہے ہیں اور کسی قسم کا کوئی تصادم  یا مسئلہ  نہیں ہے۔   وجہ یہ ہے کہ وہاں آپ جیسے  جید عالم نہیں ہیں اور ہماری بدقسمتی ہے کہ آپ ہمارے اوپر مسلط ہیں!

۶۔  سب سے اہم نکتہ: آستر ملکہ  اور اس کی کتاب کا نام بھی تبدیل کر دیجئے  یا اسے بائبل مقدس میں سے نکال دیجئے کیونکہ اس  کا نام آپ کی عستارات دیوی سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ آج ہماری کتنی ہی مسیحی بہنوں کے نام ’’آستر‘‘ ہیں اور مسیحی دنیا میں اس نام کو بڑی  عقیدت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔  کیا آپ خود کو موجودہ زمانے کا  مارٹن لوتھر سمجھتے ہیں کہ اِس کتاب کو بائبل میں سے نکال دیں؟  جائیں گے بائبل سوسائٹی والوں کے پاس؟  آج ہماری کتنی بہنوں کے نام آستر ہیں؟ تف ہے آپ کی سوچ پر!

۷۔  سچے دل سے بتائیے کہ اگر آج ایسٹر مبارک کہنے والا  شخص بہت ہی غلط کام کر رہا ہے اور بڑا پاپی اور گنہگار ہے تو آپ کے اور میرے والدین  اور پرانے بزرگ اور علما لوگ کیا تھے ؟ کیا وہ ’’ایسٹر مبارک ‘‘ نہیں کہتے رہے؟  کیا وہ سب بھی آپ کے اس فضول نظرئیے کے مطابق غلط تھے؟  کچھ خدا کا خوف کیجئے!

۸۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم مسیحیوں کی اکثریت  کم تعلیم یافتہ ، ان پڑھ یا ایسے کمزور لوگوں پر مشتمل ہے جو بیچارے ایسٹر کا لفظ بھی مشکل سے ادا کر سکتے ہیں مگر سالہا سال کی ریاضت سے انہوں نے ’’ایسٹر مبارک‘‘ کہنا سیکھا ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے پاسبان اور نوجوان ان کے سامنے بھی اس اصطلاحی تبدیلی کا اصرار کرتے پائے گئے ہیں کہ ان کی عقل پر تعجب ہوتا ہے! ایسے بیچارے لوگ ’’ہیپی ایسٹر‘‘ کہہ سکتے ہیں نہ ہی آپ کا ’’ہیپی ریزریکشن ڈے‘‘ حتیٰ کہ ’’عید قیامت المسیح‘‘ کی بھی درست ادائیگی ان کے لئے دشوار ہے ۔

۹۔  میں نے کہیں ایک پوسٹ پڑھی تھی کہ ’’اگر آپ نے چند کتابیں زیادہ پڑھ لی ہیں تو دوسروں کا جینا حرام نہ کریں‘‘۔ اگر ایسی کوئی متنازعہ بات آپ کی سمجھ میں آ رہی ہے تو آپ بے شک اس پر عمل کریں البتہ دوسروں پر اس کو مت ٹھونسیں۔ مسیحیت کودوسروں کے لئے آسان بنائیں۔

۱۰۔ ایک اور خاص مسئلہ یہاں یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ہماری مسیحی قوم کی اکثریت نیم خواندہ یا ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے جن کو لفظ ’’قیامت‘‘ کی بھی پوری سمجھ نہیں ہے۔ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ انھیں نہیں پتہ  کہ قیامت کا مطلب مردوں میں سے زندہ ہونا ہے بلکہ ہمارے ہاں لفظ قیامت  کو مصیبت، عدالت، روزِ محشر اور یومِ آخرت کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔  آپ کسی  بھی عام اور کم تعلیم یافتہ مسیحی شخص سے پوچھ کر دیکھ لیجئے کہ ایسٹر کا کیا مطلب ہے تو اسے پتہ ہوگا کہ یسوع مسیح کی مردوں میں سے جی اٹھنے کی عید۔ اگر اس کے ذہن میں قیامت کے معنی کچھ اور ہیں تو بتائیے وہ عیدِ قیامت المسیح سے کیا سمجھے گا؟  

۱۱۔ میری نظر میں اچھا استاد، عالم  یا خادم وہ ہے جو تعلیم کو آسان بنائے ۔ اس ضمن میں اپنے تمام تعلیم یافتہ  ہم خدمت ساتھیوں سے التماس کروں گا کہ میں  عبرانی اور یونانی کا مطالعہ صرف اپنی سمجھ کے لئے کرتا ہوں اور کبھی کسی  پر رعب ڈالنے یا  خود کو بڑا عالم ثابت کرنے کے لئے ان اصطلاحات کا استعمال نہیں کیا۔ ہم سب کے سامعین زیادہ تر اُن لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کے سامنے کسی نئی تعلیم کو شروع کرنا  بڑی مصیبت اور بدعت کا باعث بن سکتا ہے۔ برائے مہربانی بائبل کی تعلیمات کو آسان بنائیے۔ ایسٹر سب لوگ  آسانی سے کہہ سکتے ہیں مگر یہ عید قیامت المسیح صرف آپ اور آپ کے پڑھے لکھے پیروکار ہی کہہ سکیں گے اور یہ مشکل اصطلاحات ہمارے کمزور مسیحی طبقے کے لئے عبرانی یونانی سے کم نہیں۔ اگر آپ مسیح کے شاگرد اور حقیقی خادم ہیں تو آپ پھر کم از کم ہیپی ایسٹر کہنے والوں کو بھی گلے سے لگائیں۔

۱۲۔ اگر تبدیل کرنا ہے تو اُن چیزوں کو تبدیل کریں جن کو واقعی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری مسیحیوں کی بیشتر روایات ہندوؤں اور سکھوں کی طرز پر ہیں۔ کسی شادی میں چلے جائیں آپ کو وہاں ہندو رسومات کی بھرمار نظر آئے گی۔ ہم جس معاشرے میں  رہتے  ہیں کیا اِن کے الفاظ اکثر ہماری زبان پر نہیں آتے رہتے؟ ہم ہندوؤں اور سکھوں کی رسموں کو کیوں نہیں بدلتے؟

۱۳۔ خاص دلیل ایک گزارش ہے کہ اس طرح کے معاملات میں حتی المقدور کوشش کریں کہ اصرار نہ کریں اور دوسروں کو لمبی لمبی تاریخیں بتا کر ترغیب دینے کی کوشش نہ کریں۔ صدیوں سے یہ اصطلاحات جوں کی توں مستعمل ہیں اور لوگوں کے لئے آسان ہیں۔ ’’قدیم حدود کو نہ سرکائیے‘‘ (امثال ۲۲: ۲۸)۔ ہمیں پرانی روایات کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ پام سنڈے پر یسوع نے جب گدھی اور اُس کے بچے کو بلوایا تو اُس نے گدھی اور اُس کے بچے دونوں کو منگوایا تھا۔ یعنی ہمیں پرانی روایات اور نئی جہتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔

            ارے عزیز بھائیو اور بہنو! پلیز انھیں کہنے دیں۔ دین کو مشکل نہ بنائیں۔ ایسے فریسی نہ بنیں جن کی بابت یسوع المسیح (جس کے جی اٹھنے کا یہ دن ہے) نے فرمایا تھا کہ ’’وہ ایسے بھاری بوجھ جنکو اٹھانا مشکل ہے باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں ۔۔۔‘‘ (متی ۲۲)۔

            یاد رکھیں کہ عستارات اور ہمارے بیچ میں یسوع پڑتاہے۔ ہم اِس دن کو یسوع کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔  ہمیں عستارات سے کیا لینا دینا؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم آج نجات یافتہ ہونے کے باوجود اپنے گنہگار ماضی کو یاد کرتے رہیں۔

             ایسی لفظی جنگیں ہماری اپنی صفوں میں اتحاد کی جڑوں کو کھوکھلی کر رہی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ فوقیت و برتری کا احساس دلا رہا ہے اور ان پڑھ طبقہ بیچارہ شرمندگی کے ساتھ ان پڑھے لکھوں سے گلے ملنے سے اجتناب کرتا ہے کیونکہ وہ ان کے پائے کی گفتگو نہیں کر سکتا اور یوں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔

آخر پر عرض ہے کہ یاد رکھیے:

            ’’لفظ مار ڈالتے ہیں مگر روح زندہ کرتی ہے ‘‘ (۲۔ کرنتھیوں ۳: ۶)۔ ایسٹر اور قیامت المسیح جیسے لفظوں پر زور دینے کی بجائے اس کی روح اور پیغام کو آسان ترین لفظوں میں پھیلائیں اور باہمی فاصلوں کو مٹا کر اپنی صفوں کو مضبوط کریں۔

خدا آپ کو برکت دے اور مسیح کے جی اٹھنے کی برکات سے مالامال فرمائے۔ آمین!

مسیح میں آپ کا خیر اندیش
پاسٹر اسٹیفن رضا
(گلوریس چرچ آف کرائسٹ، کراچی )

You cannot copy content of this page