ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا خداوند یسوع مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد فوراً آسمان پر چلا نہیں گیا تھا بلکہ اُس نے مزید ۴۰ دِن اپنے شاگردوں کے ساتھ گزارے اور اِس کے بعد وہ آسمان پر اُٹھایا گیا۔ اِس سے میرے ذہن میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ یسوع کو دوبارہ زمین پر واپس کیوں آنا پڑا؟ کیا یہ بھی پیشن گوئیوں کے مطابق تھا؟ آئیے اِس حوالے سے چند اہم باتوں پر غور کرتے ہیں۔۔۔
- کیا ایسٹر ختم ہوگیا ہے؟
- ایسٹر کی خوشیاں چالیس دن جاری رہنی چاہئیں۔ ۔۔ یہ چالیس دن وہ ہیں جو ہر خادم کو کلام سناتے وقت ایکسٹرا ٹائم لینا پڑتا ہے کیونکہ یسوع نے ساڑھے تین سال منادی کی مگر کچھ باتیں جو ضروری تھیں وہ اپنے شاگردوں کو سکھانے اور اپنے جی اٹھنے کو ثابت کرنے کے لئے یسوع نے مزید چالیس دن زمین پر گزارے۔ بیابان میں ۴۰ دن آزمائے جانے کے بعد ان کے عوض چالیس دن خوشی منائی جائے ۔
- پرانے عہد نامے میں مردے کو دفن کرنے کے بعد ۴۰ دن ماتم کیا جاتا تھا۔ (پیدائش ۵۰: ۳)۔ لاش میں خوشبو بھرنے میں ۴۰ دن لگتے تھے۔ مگر یسوع کے جی اٹھنے کے بعد شاگردوں نے چالیس دن خوشی منائی۔
- کیا آپ تصور کر سکتے ہیںٰ کہ ان ۴۰ دنوں میں شاگردوں کی خوشی کی کیا حالت ہوگی؟۔۔۔ خدا نے یسوع ساہنوں دوبارہ دتا اے ۔
- یسوع کے جی اٹھنے اور آسمان پر صعود فرمانے کے درمیان ۴۰ دنوں کا وقفہ ہے۔ چالیس دنوں کے بعد یسوع اٹھایا گیا جس کی یاد میں ہم عیدِ صعود مناتے ہیں اور اس کے بعد مزید ۱۰ دنوں کے بعد عید پینتکوست آئی۔
- میرا ایمان ہے یسوع کے ۴۰ دن مزید زمین پر رہنا اس بات کا اظہار تھا کہ ہم بھی مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد ایک دم سے آسمان پر نہیں چلے جائیں گے زمین پر ہی ہزار سالہ بادشاہی کرینگے اور اس کے بعد آسمان کی بادشاہی میں اٹھائے جائینگے۔
- پھر مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اُن چالیس دِنوں کی بحالی کے چالیس دِن ہیں جن میں یسوع پانی کا بپتسمہ لینے کے بعد اور اپنی خدمت کو باقاعدہ طور پر شروع کرنے سے پہلے بیابان میں ابلیس کے ہاتھوں آزمایا جاتا رہا۔ وہ چالیس دِن یسوع نے تنِ تنہا جنگل میں گزارے اور اُس کی کامل وفاداری کو دیکھتے ہوئے خدا نے اُسے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد وہی چالیس دِن دوبارہ لوٹائے تاکہ اب اپنے شاگردوں کے ساتھ کچھ مزید وقت گزار سکے اور وہ کام بھی انجام دے جو ابھی باقی رہ گئے تھے جن میں سب سے بڑا کام اپنے شاگردوں کو ارشادِ اعظم دینا تھا۔ اِس سے ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ خدا آپ کے بیابان میں گزرے وقتوں کو بحال کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔
یسوع کے ان ۴۰ دنوں میں کیا کیاہوا :
- یسوع پانچ مختلف مقامات پر اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوا اور ثابت کرتا رہا کہ میں مردوں میں سے جی اٹھا ہوں جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ میں مردوں میں سے جی اٹھوں گا۔ (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۳۔ ۸)
- اس نے توما سے خصوصی ملاقات کی (یوحنا ۲۰: ۱۹۔ ۲۹؛ لوقا ۲۴: ۳۶۔ ۴۹)لیکن یہوداہ اسکر یوتی کا ذکر نہیں کیا ، کیوں؟
- اماؤس کی راہ پر (لوقا ۲۴: ۱۳۔ ۳۵)۔
- آخری معجزہ کیا (یوحنا ۲۱: ۱۔ ۱۴)
- پطرس کے تین بار انکار کو خداوند یسوع مسیح نے دوبارہ اقرار میں بدل دیا (یوحنا ۲۱: ۱۵۔ ۱۹)
- لوقا بیان کرتا ہے کہ یسوع چالیس دنوں تک ان سے آسمان کی بادشاہی کی باتیں کہتا رہا لیکن وہ کونسی باتیں تھیں؟
- یسوع نے اپنے شاگردوں کے ذہن کھولے (لوقا ۲۴: ۲۵)
- یوحنا کہتا ہے کہ یسوع نے اور بہت سے کام بھی کئے جو لکھے نہیں گئے (یوحنا ۲۰: ۳۰)
- ارشادِ اعظم دیا۔ متی ، مرقس میں ارشادِ اعظم کا ذکر ہے۔ (متی ۲۸: ۱۸۔ ۲۰) ۔
ان چالیس دنوں میں یسوع نے کیا کیا خاص کام کئے:
- ایک خاص کام جو یسوع کو کرنا چاہئے تھا مگراس نے نہ کیا کہ اس نے یہوداہ اسکر یوتی کی جگہ پر کسی شاگرد کو خود سے نہیں چنا بلکہ اس کام کو روح القدس کی ہدایت کے مطابق کلیسیا کے ذمے لگادیا جو اس بات کی شہادت ہے کہ خادموں کے چناؤ کا پورا اختیار اب سے کلیسیا کے پاس ہے۔
- اس نے اپنے شاگردوں کو روح القدس کے نزول کے لئے تیار کیا۔
- اس نے اپنے شاگردوں کو کلیسیا کے جنم اور آغاز کے لئے تیار کیا۔
- خاص بات یہ بھی ہے کہ اس نے کلیسیا یا کلیسیائی نظام کے بارے میں انھیں کوئی تعلیم نہ دی۔
- یسوع کو معلوم تھا کہ اب مَیں تو چلا جاؤں گا مگر روح القدس آ کر خود سب باتیں انھیں سکھائے گا۔ جس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج کلیسیا پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا میں پھیل چکی ہے۔ یہ روح القدس کا کمال ہے۔
خداوند آپ کو اِس پیغام کے وسیلہ سے برکت عطا کرے۔ آمین!
پاسٹر اسٹیفن رضاؔ
گلوریس چرچ آف کرائسٹ، کراچی پاکستان